کلامِ مولانا رومی - نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
منظوم و ماخوذ اردو غزل
نہ یونہی کو چہ و بازارمیں بیکار میں گھوموں
( ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی یہ غزل نوائے وقت میگزین میں 7 مارچ 2021 کو صفحہ نمبر 14 پر شائع ہوئی )
( نثری ترجمہ محمد وارث)
Full Song Release of "نہ یونہی کوچہ و بازار میں بیکار میں گھوموں"
اسلام علیکم،
جناب شفقت ممتاز عرف پپو مان کی آواز اور کمپوزیشن میں گائی ہوئی غزل "نہ یونہی کوچہ و بازار میں بیکار میں گھوموں" کی پوری ویڈیو حاضرِ خدمت ہے۔
ڈاکٹر ضیا ء ا لمظہری کی لکھی ہوئی یہ غزل نصرت فتح علی خان کے گائے ہوئے مولانا رومی کے فارسی کلام
"نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم"
سے ماخوذ ہے۔
You are requested to like, comment & share our videos. Also subscribe our Newly launched YouTube channel CHASHM E BEENA to watch more of such videos. And please don’t forget to press the bell-icon.
یو ٹیوب پہ ہماری رفاقت کے لئے ہمارے نئے یو ٹیوب چینل "چشمِ بینا" کو سب سکرائب کیجئے اور ہماری نئی کاوشوں سے بر وقت آگاہی کے لئیے گھنٹی یعنی بیل کا بٹن بھی دبا دیجئیے۔
اگر ہو سکے تو اپنی پسند اور تبصرے بھی ہمارے یو ٹوب چینل کی نذر کیجئے گا شکریہ
خیر اندیش ضیا ء ا لمظہری
اس غزل کا ٹریلر پیشِ خدمت ہے ۔ یہ غزل معروف گلوکار شفقت ممتاز نے گائی ہے۔
نہ یونہی کو چہ و بازارمیں بیکار میں گھوموں
کہ ذوقِ عاشقی لے کر پئے دیدار میں گھوموں
خدایا رحم کر مجھ پر پریشاں وار میں گھوموں
خطا کر کے گناہ کر کے بہ حال زارمیں گھوموں
شرابِ شوق پیتا ہوں بہ گردِ یار میں گھوموں
سخن مستانہ کہتا ہوں مگر ہوشیار میں گھوموں
کبھی ہنستا کبھی روتا کبھی گر تا سنبھلتا ہوں
مسیحا میرے دل میں ہے مگر بیمار میں گھوموں
تو اے جاناں عنایت کردے مولانائے رومی پر
غلامِ شمس تبریزی قلندر وارمیں گھوموں
عطا ہو مظہریؔ کو بھی فکرِ رومیؔ و اقبالؔی
پئیے اظہار دل میں لے کے یہ افکار میں گھوموں
اشعارِ مولانا رومی منظوم اور نثری ترجمہ کے ساتھ
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
نہ یونہی کو چہ و بازارمیں بیکار میں گھوموں
کہ ذوقِ عاشقی لے کر پئے دیدار میں گھوموں
میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
خدایا رحم کر مجھ پر پریشاں وار میں گھوموں
خطا کر کے گناہ کر کے بہ حال زارمیں گھوموں
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
شرابِ شوق پیتا ہوں بہ گردِ یار میں گھوموں
سخن مستانہ کہتا ہوں مگر ہوشیار میں گھوموں
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
کبھی ہنستا کبھی روتا کبھی گر تا سنبھلتا ہوں
مسیحا میرے دل میں ہے مگر بیمار میں گھوموں
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
تو اے جاناں عنایت کردے مولانائے رومی پر
غلامِ شمس تبریزی قلندر وارمیں گھوموں
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
عطا ہو مظہریؔ کو بھی فکرِ رومیؔ و اقبالؔی
پئیے اظہار دل میں لے کے یہ افکار میں گھوموں
No comments:
Post a Comment