عمومی صحت چشم
آنکھوں کی صحت اور حفاظت اچھی بصارت کے لئے بے حد ضروری ہے اور ذرا سی بے احتیاطی بصارت میں کمی یا بصارت کے ختم ہو جانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ آنکھوں کا باقاعدگی سے چیک اپ ہونا اور بصارت ٹیسٹ کروانا ضروری ہے کیونکہ عام طور پر آنکھوں کے مسائل درد یا تکلیف کا سبب نہیں بنتے لہذا کسی بھی قسم کے مسئلے کی فوری تشخیص نہیں ہوپاتی۔ ے شک آنکھیں قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں۔آنکھیں نہ صرف ہمیں مختلف نظاروں، بلکہ کائنات کی ہر شے اور ہرنگ سے روشناس کراتی ہیں۔ آنکھیں ہمارے چہرہ کا سب سے حساس حصہ ہیں۔ اس کی حفاظت بھی اتنا ہی اہم کام ہے۔آنکھوں کی ہلکی سی تکلیف بھی بہت زیادہ اذیت کا باعث ہوا کرتی ہے۔ماحولیاتی آلودگی ،گرد وغبار اور تیز روشنی ہمیشہ آنکھوں کو متاثر کیا کرتے ہیں۔
خشک آنکھیں
اکثر افراد کو اس قسم کی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جس کے دوران لگتا ہے جیسے آنکھیں بالکل خشک ہوگئی ہیں، جس کی وجہ اکثر وٹامن اے کی کمی ہوتی ہے، تاہم یہ شکایت عمر بڑھنے اور کچھ خاص ادویات کے استعمال کے باعث بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری کا باعث بھی ہوسکتا ہے جو خاص طور پر ایسے گلینڈز کو متاثر کرتا ہے جو آنسوﺅں اور لعاب دہن کو بنانے کا کام کرتے ہیں۔عام طور پر اس کے دوران ایسا لگتا ہے کہ جیسے آنکھ میں کوئی کنکر چلا گیا ہو اور چبھن محسوس ہوتی رہتی ہے۔ وٹامن اے کے ساتھ ساتھ غذا میں صحت بخش چربی کی کمی بھی اس کا باعث بن سکتی ہے۔
آشوبِ چشم:ایک وبائی مرض
آشوبِ چشم ایک عام وقوع پذیر ہونے والا مرض ہے جو کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔موسمِ برسات کے بعد آشوبِ چشم کا مرض بڑی تیزی سے پھیلتا ہے۔اس مرض میں مریض کی آنکھیں سوج کر سرخ اور بھاری ہو جاتی ہیں۔آنکھوں میں دکھن اور جلن کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے۔ آنکھو ں سے پانی نما پتلی رطوبت ہر وقت بہتی رہتی ہے اور آنکھیں تیز چمک یا روشنی برداشت نہیں کر پاتی ہیں۔ سو کر اٹھنے سے آنکھوں کی پتلیاں باہم چپک جاتی ہیں اور مریض درد کی شدت کو بڑی مشکل سے برداشت کرتا ہے۔
آشوبِ چشم عام طور پر ایک اچھوتی مرض ہوتا ہے جو ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر چہ آشوبِ چشم کا کوئی خاص موسم یا وقت نہیں ہو تا،تاہم برسات کے بعد اس کے حملہ آور ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔بارش ہو جانے کے بعد نکلنے والی دھوپ شدید تیز ہوتی ہے جو نہ صرف چبھن کا باعث بنتی ہے بلکہ آنکھوں کو چندھیانے کا سبب بھی۔سورج کی چمک آنکھوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔جس سے آنکھیں متورم ہو کر آشوبِ چشم میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔علاوہ ازیں سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک سے برسات کے دنوں میں گندے ذرات گرد و غبار اور ماحول کی آلودگی میں اضافہ ہوجانا بھی اس مرض کے پھیلاؤ کا باعث بن جاتا ہے۔آشوبِ چشم کا مرض سات سے دس دنوں کے بعد خود ہی چھوڑ جاتا ہے۔جب اس کی وبا پھیلتی ہے تو بچے ، بوڑھے ، جوان مرد اور عورتیں سب ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔
جب کسی کو آشوبِ چشم ہو جائے تو انھیں اینٹی بائیوٹک ڈراپس آنکھوں میں استعمال کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے انکھوں میں ماریں ،گلاسز لگائیں، کسی دوسرے سے ہاتھ مت ملائیں۔ اپنی ذاتی استعمال کی اشیاء کودوسروں سے الگ رکھیں تاکہ کسی دوسرے کو اس کا انفیکشن نہ ہو۔ مرض کی شدت اور درد پیشِ نظرمریض کو اینٹی بائیوٹک ڈراپس اس لیے تجویز کیے جاتے ہیں تاکہ مریض کو آشوبِ چشم کے وائیرل انفیکشن کے بعد بیکٹر یا انفیکشن نہ ہو کیونکہ یہ انفیکشن آنکھ میں پیچیدگی پیدا کر تا ہے۔ اس لیے اینٹی بائیوٹک ڈراپس کے استعمال کے بعد سیکنڈ انفیکشن کا خطرہ نہیں ہوتا۔ آنکھوں میں خارش ہو تو آنکھ کو ملیں مت کیونکہ ملنے سے آنکھ کا کارینا متاثر ہو سکتا ہے۔آشوبِ چشم کے مریض کا تولیہ اور استعمال کے برتن اور چیزیں الگ ہونی چاہئیں، تاکہ گھر کے دیگر افراد کو اپنی لپیٹ میں نہ لے سکے کیونکہ احتیاطی تدابیر سے اس وبائی مرض سے بچا اور اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
جو لوگ موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں وہ چشمے اور ہیلمٹ کا استعمال ضرور کریں۔آ نکھوں پر ہلکے سبز ،سیاہ اور نیلے شیشے والی عینک کا استعمال کیے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ عینک لگائے بغیر موٹر سائکل یا سائکل ہر گز نہ چلائیں۔ کیونکہ ہوا میں شامل ذرات اور دھواں بھی آنکھوں میں پڑ کر آشوبِ چشم کا باعث بنتے ہیں۔تیز روشنی اور چمک دار چیزوں کی طرف دیکھنے سے پر ہیز کریں۔ٹی وی بھی عینک لگائے بغیر نہ دیکھا جائے اور ٹی وی سکرین کافی فاصلے پر رکھیں۔ یہ وائرس ایسے علاقوں میں شدت اختیار کر رہا ہے جہاں پر صفائی ستھرائی کا معقول انتظام نہیں ہے۔ پوش علاقوں میں یہ وباء ابھی تک کنٹرول دکھائی دے رہی ہے۔
س:ماضی کی نسبت اب دو، تین سال کے بچّوں میں بھی نظر کم ہونے کی شکایت زیادہ بڑھ گئی ہے، تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ج: جی بالکل، بچّوں میں نظر کم زوری کی شرح بڑھ رہی ہے،کیوں کہ اکثر والدین دو، پانچ یا چھے سال کی عُمر کے بچّوں کو بہلانے یا کھانا کھلانے کے لیے ان کے ہاتھوں میں موبائل فونز تھما دیتے ہیں۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایسے بچّوں میں عینک لگنے کے پندرہ فی صد امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ بچّوں کو لیپ ٹاپ یا موبائل فون تھما کر کمرے تک محدود کردیا جاتا ہے،جو درست نہیں۔یاد رکھیے، جو بچّے کُھلے آسمان تلے اور سرسبز زمین پر دِن کا کچھ حصّہ گزارتے ہیں، ان کی نظر ٹھیک اور مجموعی کارکردگی کمرے میں بند رہنے والوں سے بہتر پائی جاتی ہے۔اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت نے انگریزی میں ایک مقولہ بھی متعارف کروایا ہے کہ ۔یعنی ’’بچّوں کو کھیلنے کودنے دیں اور عینک لگنے سے بچائیں۔
آنکھ پھڑکنے کی وجہ کیا ہوتی ہے۔
درحقیقت عام طور پر آنکھ پھڑکنا ہوسکتا ہے کہ ذہنی طور پر پریشانی کا باعث بنے مگر یہ کسی بیماری کے بجائے طرز زندگی، ایک وجہ ہوسکتی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق آج کل لوگ اپنا بہت زیادہ وقت کمپیوٹر یا فون کی اسکرین کے سامنے گزارنے کے عادی ہوتے ہیں۔اور اس عادت کے نتیجے میں آنکھوں پر دباﺅ بڑھتا ہے یا وہ خشک ہونے لگتی ہے۔تاہم ایسا ہونے پر آنکھ پھڑکنے کے امکان بھی بڑھتے ہیں۔اسکرینوں سے ہٹ کر بہت تیز روشنی میں رہنا، آنکھ کی سطح یا اندرونی حصے میں خارش، جسمانی دباﺅ، تمباکو نوشی، ذہنی تناﺅ اور تیز ہوا کے نتیجے میں آنکھ پھڑکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اگر آنکھ کی اس حرکت سے پریشان ہیں تو آنکھوں کو کچھ وقت تک آرام دیں۔اگر ممکن ہو تو اپنے سے کچھ دیر کے لیے وقفہ کریں اور شام میں ایسی سرگرمیوں کو اپنائیں، جس میں اسکرین وغیرہ کا کوئی دخل نہ ہو۔بہت کم ایسا ہوتا ہے جب آنکھ پھڑکنا کسی عارضے کی نشانی ہو اور وہ بھی اس وقت جب مناسب آرام اور اسکرین وغیرہ سے دوری کے باوجود یہ سلسلہ برقرار رہے۔اگر اس کے باوجود آنکھ کی لرزش نہ رکے تو یہ پلکوں کے ورم، آنکھوں کی خشکی، روشنی سے حساسیت اور موتیا وغیرہ کی علامت ہوسکتی ہے۔بہت سنگین معاملات میں یہ کسی دماغی اور اعصابی نظام کے مسئلے کی نشانی ہوسکتی ہے جس کے ساتھ چند دیگر علامات بھی سامنے آتی ہیں۔
: ڈاکٹر ضیا۶ المظہری کی آنکھوں کی صحت کے بارے میں ۹۲ نیوز پر بات چیت
: کمپیوٹر کا استعمال کرنے والوں کے لیے پیغام
ہر20منٹ بعد،20سیکنڈ کے لیے اسکرین سے نظر ہٹائیں
ڈاکٹر ضیاء المظہری نے آنکھوں کی حفاظت سے متعلق بتایا ،’’ نامناسب طرزِزندگی کے باعث بچّوں اور بڑوں کی کثیر تعداد امراضِ چشم کا شکار ہورہی ہے۔ایک صحت مند فرد40سال کی عُمر کے بعدہر سال کسی مستند ماہرِ امراض چشم سے اپنی آنکھوں کا لازمی معائنہ کروائے۔اگر آنکھوں کے امراض کی فیملی ہسٹری ہو،تو پھر معائنہ اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ کم روشنی میں پڑھنے سے گریز کیا جائے، جب کہ سگریٹ نوشی سے پرہیز ضروری ہے۔ جہاں تک خوراک کا تعلق ہے، تو ہری سبزیاں، گاجر، پالک، بندگوبھی، مچھلی، سونف، نظر کی تقویت کا باعث بنتی ہیں۔ انڈے، مونگ پھلی، پھلیاں، لیموں اور دوسرے ترش پھل بھی بہت مفید ہیں۔
سن گلاسز کا استعمال بھی فائدہ مند ہے کہ یہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جو افراد الیکٹرانک ڈیوائسز مثلاً کمپیوٹر،لیپ ٹاپ یا ٹیبلیٹس وغیرہ کا زائد استعمال کرتے ہیں، ہر 20منٹ بعد اپنی آنکھیں اسکرین سے ہٹائیں اور اپنے سامنے کم از کم 20فٹ دُور تک، سیکنڈ تک دیکھیں۔ اس سے آنکھوں کے پٹّھوں پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔مانیٹر آنکھوں کی سطح کے مطابق رکھا جائے،جہاں سے بس ہلکی سی آنکھیں جُھکا کر کام کرنا پڑے۔ آرام دہ اور کمر کو سپورٹ کرنے والی کرسی کا انتخاب کریں اور ایسے بیٹھیں کہ کمر سیدھی اور پائوں زمین پر پھیلے ہوں۔ دورانِ کام آنکھیں خشک ہونے لگیں، تو بار بار جھپکائیں۔ ہر دو گھٹنے بعد اُٹھ کر چہل قدمی بھی کریں۔ علاوہ ازیں، عام روٹین میں بھی چہل قدمی اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں، یہ عمل کالے موتیے سے لے کر دیگر عام امراضِ چشم لاحق ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔
Contact Our Team:
If you are looking for any of below services, please fill the form below, one of our team member will get in to provide you with full facilitation:
1– Comprehensive Primary Eye Exam/ Consultation
Consultation ::: Adult Eye Examination and Consultation
Consultation ::: Children Eye Examination Refraction Consultation
Consultation ::: Infant Eye Examination Refraction Consultation
2-Secondary Follow up Eye Examination and Consultations
Followup ::: Examination under Sedation for Kids (After Initial Consultation)
Followup ::: Dilated Fundus Examination(DFE)
Followup ::: Cycloplegic Refraction and DFE
3-Diagnostic Eye Test
Diagnostic ::: OCT
Diagnostic ::: Angio OCT
Diagnostic ::: Anterior Segment OCT
Diagnostic ::: Pachymetery
Diagnostic ::: Perimetery / Visual Fields
Diagnostic ::: Hess Chart/Digital Squint Assessment/Digital Diplopia Test
Diagnostic ::: Digital Colour vision test
No comments:
Post a Comment