Wednesday, 9 March 2022

Global Iqbalian Mushaira 2022

غزل میں مسیحا ہوں کروں دل سے مسیحائی مگر

Global Iqbalians Annual Mushaira 26th Feb 2022 Message from Hayat Chaudhary AIMCA UK/GIO are pleased to say big THANKS to all our great Iqbalians who participated and performed pretty well at GLOBAL IQBALIANS VIRTUAL MUSHAIRA&GUPSHUP 2022. You guys rocked the show. We are also grateful to those Iqbalians who sent thousands of appreciation messages in the chatbox.AIMCA/GIO will keep on working to bring smiles to your faces.

Global Iqbalian Mushaira’s Youtube Video

Global Iqbalian Mushaira’s Youtube Video
غزل میں مسیحا ہوں کروں دل سے مسیحائی مگر

ستائیس فروری بییس سو بائیس کو گلوبل اقبالئین آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام عالمی آن لائن مشاعرہ منعقد ہوا۔ جناب ڈاکٹر ایاز محمود اور ڈاکٹر حیات چوہدری صاحب اس کے روحِ رواں تھے۔ معروف اردو پنجابی شاعر محترم سلمان گیلانی صاحب نے مہمانِ خصوص کے طور پر شرکت کی۔ میں اپنے اقبالین بھائیوں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے نے مجھے بھی اس خوبصورت بزم کا حصہ بننے کا موقع دیا۔ ایک غزل ایک اردو اور ایک پنجابی کی نظم اس موقع پر سنائی جو آپ کی سماعتوں کی نذر ہے

غزل میں مسیحا ہوں کروں دل سے مسیحائی مگر

روزنامہ نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں ۲۸ فروری کو شائع ہوئی

نظم ڈاکدار ۲۰۱۶ میں شائع ہونے والی کتاب چشمِ بینا کا حصہ ہے

جبکہ چلو پھر مسکراتے ہیں کو دسمبر اور جنوری میں نوائے وقت اور جنگ دونوں کے صفحات کی زینت بننے کا اعزاز حاصل ہے

Virtual Global Iqbalian Mushaira’s Presenters

Virtual Global Iqbalian Mushaira’s Presenters

Get registered yourself by visiting our sites www.aimcauk.org www.gioworld.com

اس مشاعرہ میں ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی سنائی جانے والی تین غزلیں مندرجہ ذیل ہیں ۔

غزل-1

میں مسیحا ہوں کروں دل سے مسیحائی مگر

کب کسی کے ہاتھ سے سب نے شفا پائی مگر

جس دوا سے ایک خلقت ہو چکی ہے فیض یاب

وہ ہی دوا اک شخص کو ہرگز نہ راس آئی مگر

آرزو ہے کوئی بھی محروم بینائی نہ ہو

ابن مریم کو ملی کامل مسیحائی مگر

بصیرت و ادراک بھی تو مانگنے کی چیز ہے

خلقِ خدا بس دھونڈتی پھرتی ہے بینائی مگر

چارہ گر ہیں اور بھی پر واصفی و طارقی

سب سے رکھتے ہیں جدا طرزِ شکیبائی مگر

حد سے بڑھتی جا رہی ہے جستجوئے کائنات

دولتِ کمیاب ہے خود شناسائی مگر

حکمتِ ربی سے ہو گا جو بھی ہو گا فیصلہ

عرضِ خفی ہو یا جلی، ہوتی ہے شنوائی مگر

شعر و نغمہ و غزل، نظم و نثر، علم و ادب

آشنائی میں نہ بدلی وہ شناسائی مگر

چشمِ سر سے دیکھتا ہے سوختہ جانوں کے پر

راکھ کر کے چھوڑتا ہے شوقِ یکجائی مگر

بال جتنے رہ گئے ہیں وہ بھی چاندی ہو گئے

دل میں گونجے ہے ابھی سازِ شہنائی مگر

محفلوں اور مجلسوں میں گاہے جائے مظہریؔ

ساتھ رکھتا ہے ہمیشہ اپنی یکتائی مگر

۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل-2

لے ہاں وے ڈاکدارا ویکھ میری باں

چھیتی چھیتی دس مینوں پیڑ کیڑے تھاں

کیڑی اے بیماری مینوں کی اوندا ناں

آپو آپ بُجھ لویں تینوں مناں تاں

کجھ وی نئیں دسناں میں کجھ وی نیئں بولنا

پیت بیماری دا اَج تویوئیں کھولنا

ڈیرے تے ملنگاں تے جوگی اِک وسدا

ہتھ رکھ متھے تے روگ سارے دسدا

پنڈ چہ حکیم جی ساڈے اِک رہندے نے

نبض ہتھ پھڑ کے بیماری بُجھ لیندے نے

گلاں باتاں کرکے جے بُجھنی بیماری اے

کادا ایں تو ڈاکدار کادی ڈاکداری اے

غزل -3

چلو پھر مسکراتے ہیں

نئی امید بنُتے ہیں نیا جذبہ جگاتے ہیں

رنج و غم بھلا کر ہم چلو پھر مسکراتے ہیں

نہیں ملتا مہِ تاباں اماوس ہے تو کیا غم ہے

کوئی تارہ کوئی جگنو کہیں سے ڈھونڈ لاتے ہیں

نہ ہونے دیں گے مدھم ہم چراغِ آرزو کی لَو

روغن کی جگہ یارو خونِ دل جلاتے ہیں

چلے آؤ کہ مل بیٹھیں پیالی چائے کی پی لیں

خنک شامِ دسمبر کو حسیں دلکش بناتے ہیں

افق پہ ڈوبتا سورج سنہرے ر نگ کرنوں کے

سرمئی اندھیرے میں گھلتے ملتے جاتے ہیں

باتیں بیتے وقتوں کی یادیں کھوئے لوگوں کی

پردہ ءِ تصور کے سنگھاسن پہ سجاتے ہیں

جو اپنے بس میں ہے یارو وہ تو کرتے جائیں ہم

دلوں کے زخم بھرتے ہیں روتوں کو ہنساتے ہیں

سالِ نو کی صبح کو ضیاءالمظہریؔ آؤ

نئی آسوں امنگوں اور دعاؤں سے بلاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔