Tuesday, 15 December 2020

Jasd-e-Do-Lakht-Saqoot-e-Dhaka

The Poem about Saboot-e-Dhaka in Urdu

جسد دو لخت

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہریؔ

پسِ منظر

تم جو بولو تو وہی قصہ سناؤں پھر سے

خود بھی گریہ کروں تم کو بھی رلاؤں پھر سے

انچاس برس پہلے آج ہی کے دن ہمارے قومی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہوا۔ لا الہ الاللہ کے نام پر بننے والی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔جنگ کی وجہ سے ہمارا خاندان پسرور کے نواحی گائوں میں اپنے خالو کے گھر میں پناہ گزیں تھا۔ کمرے کے فرش پر پرالی بچھا کر بستروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پھوپھی کا گیارہ سالہ بیٹا خالد ریڈیو پاکستان پر پنجابی نغمہ "تر رگڑا، اینہاں نون دیو رگڑا" سن کر اپنے جوش وخروش کا اظہار کر رہا تھا والد صاحب جو شعبہ ءِ تعلیم سے وابستہ تھے انتہائی رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئے، " رگڑا تو ہمیں لگ گیا ہے، بی بی سی کے مظابق پاکستان نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں" اُن کے یہ الفاظ، آنسو بھری آنکھیں اور لہجے سے ٹپکتا ہوا دکھ میرے ننھے ذہن پر ہمیشہ کے لئیے ثبت ہو کر رہ گیا۔

معروف ادبی شخصیّت اور نوائے وقت کے ادبی صفحات کی روحِ رواں جناب خالد یزدانی صاحب سے غائبانہ تعارف نوائے وقت کا پرانا قاری ہونے کے ناطے عرصہ ءِ دراز سے حاصل تھا۔ یہ تعارف 2010 میں ایک تعلقِ خاطر میں اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں لکھی ہوئی نطم "دخترِ اُمّت" کو انھوں نے اپنے صفحہ کی زینت بنایا۔ اسی طرح 2016 میں شائع ہونے والی کتاب چشمِ بینا کو بھی اپنے قیمتی تبصرہ سے نوازا اور نوائے وقت کے تبصرہ کتب کے حصہ میں شائع کیا۔

شعبہ امراضِ چشم کے توسط سے براہِ راست ملا قاتوں کا موقع ملا اور یوں محترم یزدانی صاحب گاہے گاہے تشریف لا کر میرے شعرو شاعری کے ادبی ذوق کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ ماہِ نومبر کے آخر میں ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں کچھ لکھیں تا کہ نئی نسل کو تاریخ کے بارے میں آگاہ کیا جاسکے۔

محض پانچ سال کی عمر میں پیش آنے والے اس عظیم قومی سانحہ کے نقوش والدِ مرحوم کی قومی سیاست میں انتہائی دلچسپی کی وجہ سے بچپن ہی سے میرے ذہن پر نقش رہے ہیں۔ اس طرح دسمبر 2020 میں یہ تاثّرات ایک نظم "جسدِ دو لخت" کی صورت میں ۱۳ تاریخ کو نوائے وقت میگزین کی سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں خصوصی اشاعت کا حصہ بنے۔

اس کے اشعار، آج سولہ دسمبر کے دن، غور و فکر کی دعوت کے ساتھ آپ کی بصارتوں اورسماعتوں کی نذر ہیں۔

تاریخ سے جو قومیں سبق لیتی نہیں ہیں

ان کا انجام تباہی ہے بتاؤں پھر سے

جسدِ دو لخت

تم جو بولو تو وہی قصہ سناؤں پھر سے

خود بھی گریہ کروں تم کو بھی رلاؤں پھر سے

پھر سے تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے

اپنے سر کو میں گریباں میں جھکاؤں پھر سے

نازُک سی طبع تیری گراں بار نہ ہو تو

داغ سینے کے ذرا کھل کے دکھاؤں پھر سے

کس کا کیا دوش تھا کیا جرم تھا کیا تھیں اغراض

اتنے پہروں میں زباں کیسے ہلاؤں پھر سے

شیر دل سےجوانوں کو دیا قیدِ عدُو میں

دار پر ایسی قیادت کو چرھاؤں پھر سے

تاریخ سے جو قومیں سبق لیتی نہیں ہیں

ان کا انجام تباہی ہے بتاؤں پھر سے

کیسی تھی ہزیمت جو نہ دیکھی نہ سنی تھی

کیسے اِس سولہ دسمبر کو بھلاؤں پھر سے

پھر سے ملّت میں ہو یکتائی کا جوہرپیدا

دل میں امید کی شمع کو جلاؤں پھر سے

چرخِ ایّام کو ممکن ہو تو الٹا پھیروں

جسدِ دو لخت ضیاءؔ ایک بناؤں پھر سے

اس کے اشعار، غور و فکر کی دعوت کے ساتھ آپ کی بصارتوں اورسماعتوں کی نذر ہیں۔

No comments:

Post a Comment