Showing posts with label Urdupoetry. Show all posts
Showing posts with label Urdupoetry. Show all posts

Thursday, 14 October 2021

Mard-e-Nayab-Abou ben Adhem-Urdu Poem

مردِ نایاب

مردِ نایاب

(ابو بن ادھمؒ)

(ماخوذ)

ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی یہ نظم نوائے وقت کے سنڈے میگزین کے ادبی صفحہ (14) پر 11 ستمبر 2021 کو شائع ہوئی۔

نظم کے پس منظر کے بارے ڈاکٹر صاحب یوں رقم طراز ہیں۔

Mard-e-Nayab-Abou ben Adhem-Urdu Poem-مردِ نایاب

زمانہ ءِ طالب علمی میں ایک نظم ابو بن ادھم جو ہماری میٹرک کی انگریزی کی کتاب میں شامل تھی، نے میرے زہن و دل پر ایک گہرا تاثر چھوڑا۔ حضرات ابو بن ادھمؒ کی شہزادگی اور پھر روحانی منازل میں ترقی کے واقعات دینی مجالس میں سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے گوگل پر لی ہنٹ کی نظم کو ڈھونڈا اور یوں ماخوذ نظم "مردِ نایاب" لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر

کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر
مردِ نایاب

اللٰہ راضی ہو اس مردِ نایاب سے

جاگے ایک شب ابو بن ادھم خواب سے

اٹھ کے دیکھا منور شبستان ہے

بقعہ ءِ نور ہے ضوئے مہتاب سے

نرگسِ نو شگفتہ کی مانند لگے

ایک وجودِ منور تب و تاب سے

زر کے اورق پہ وہ فرشتہ حسیں

محوِ تحریر تھا قلمِ نایاب سے

حوصلہ بن ادهم کو سکوں نے دیا

پوچھا لکھتے ہیں کیا قلمِ زر تاب سے

سر اٹھا کر ملک ایسے گویا ہوا

دیکھ کر بولا ایک نطرِ شہداب سے

نام لکھتا ہوں ایسے بندوں کے میں

عشق کرتے ہیں جو ربِّ ارباب سے

بن ادهم نے کہا کہ کہ ذرا ڈھونڈئیے

نام میرا بھی فہرستِ احباب سے

آپ کا نام تو اس میں شامل نہیں

جواباً ملک بولا آداب سے

نہ تو مایوس نہ دل شکستہ ہوئے

بن ادھم بولے فرحاں و شاداب سے

نام لکھیں میرا پیا ر کرتے ہیں جو

بندگانِ خداوندِ وہاب سے

رخصت ہوا نام لکھ کر سروش

اگلی شب کھل گئی آنکھ پھر خواب سے

دیکھتے ہیں وہی ہے فرشتہ کریم

خواب گاہ بھر گئی نورِ سیماب سے

نام ان کے دکھائے که جن کو ملی

الفتِ کاملہ ربِّ ارباب سے

نامِ نامئِ حضرت ابو بن ادهم

عالی رتبہ تھا سارے ہی احباب سے

قربِ خالق جو چاہے کرے پیار وہ

بندگانِ خداوندِ توّاب سے

Abou Ben Adhem Poem by Leigh Hunt

Abou Ben Adhem Poem by Leigh Hunt

Abou Ben Adhem (may his tribe increase!)

Awoke one night from a deep dream of peace,

And saw, within the moonlight in his room,

Making it rich and like a lily in bloom,

An angel writing in a book of gold:—

Exceeding peace had made Ben Adhem bold,

And to the presence in the room, he said,

"What writest thou?"—The vision raised its head,

And with a look made of all sweet accord,

Answered, "The names of those who love the Lord."

"And is mine one?" said Abou. "Nay, not so,"

Replied the angel. Abou spoke more low,

But cheerly still; and said, "I pray thee, then,

Write me as one that loves his fellow men."

The angel wrote and vanished. The next night

It came again with a great wakening light,

And showed the names whom love of God had blest,

And lo! Ben Adhem's name led all the rest.

Monday, 17 May 2021

Deedar-e-Qamar-Eid Greetings-Urdu

عید الفطر ۲۰۲۱ کے پر مسرت موقع پر تمام اہلِ اسلام کو عید مبارک

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ چاند کی رویت پاکستان ہمیشہ سے مختلف پہلوؤں سے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ بحث کا موضوع رہی ہے۔ اسی تناظر میں لکھی ہوئی نظم دیدارِ قمر آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ نظم نوائے وقت میگزین کے سنڈے ایڈیشن میں ۹ مئی ۲۰۲۱ کو شائع ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی اپنی آواز میں ویڈیو بھی آپ کی نذر ہے امید آپ کو پسند آئے گی۔

نظم دیدارِ قمر پیشِ خدمت ہے۔

دیدارِ قمر

بوڑھوں کی نظر سے نہ جوانوں کی نظر سے

آتا ہے نظر چاند پٹھانوں کی نظر سے

مفتیِ رویت کو بھی آئے گا نظر تب

دیکھے وہ اگر چاند پٹھانوں کی نظر سے

کہتے ہو کہ دیکھا ہے قمر، سوچ لو تھوڑا

دھوکا تو نہیں کھایا کہیں عکسِ قمر سے

مفتی ہو یا ہو موسمی احوال کا ماہر

ہوئی مات نظر سب کی پٹھانوں کی نظر سے

رمضان کا ہو چاند یا ہو عیدِ فطر کا

کیا حرج ہے رویت ہو پشاور کے شہر سے

انتیس کا رمضان تو خواہش ہے سبھی کی

ہے خاص لگاؤ ہمیں عیدِ فطر سے

مظہرؔ کی طرف سے ہو دِلی عید مبارک

آنکھوں کو کیا ٹھنڈا دیدارِ قمر سے

Tuesday, 11 May 2021

Khitab-e-Momin-A believer addresses Pharaoh-Firon court

(ماخذ۔ سورہ ءِ مومن۔ القرآن)

ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی یہ نظم نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں ۲ مئی ۲۰۲۱ کو شائع ہوئی۔

اپنے بہت خاص وزیروں کو بلا کے

فرعون یوں گویا ہوا دربار سجاکے

جو رائے تمھاری ہو تو موسیٰ کو سزا دوں

سوچا ہے فساد اس کا جڑ سے ہی مٹا دوں

چال پہ اپنی اب کرتا ہوں عمل میں

چھوڑو مجھے موسی کو کرتا ہوں قتل میں

موسی سے کہو اپنے رب کو وہ بلا لے

جو حشر اٹھانا ہو ذرا وہ بھی اٹھا لے

اندیشہ ہے یہ دین تمہارا نہ بدل دے

ڈرتا ہوں زمیں کو نہ فسادات سے بھر دے

موسیٰ نے کہا رب کی پناہ شر کے مقابل

حساب کے منکر متکبّر کے مقابل

فرعون کے دربار میں ایک مومن صادق

وہ بات کہی اس نے جو تھی کہنے کے لایق

ایمان ابھی دل میں چھپا رکھا تھا اس نے

محبوب مگر رب کو بنا رکھا تھا اس نے

اس شخص کو کر دو گے بھلا تم یوں قتل کیا

جو کہتا ہے میرا رب ہے فقط ایک ہی اللہ

بیّناتِ واضح اپنے رب سے لے کے آ گیا

جھوٹ باندھے گا اگر وبال اس پہ آئے گا

ہاں مگر سوچو اگر سچ وہ کہتاہے نبی

لازم تباہی آئے گی اس نے جو تم پہ کہی

راہ نہ دکھلائے اللّٰہ اس کو جو حد سے بڑھے

اور اس کو بھی نہیں جھوٹ سے جو کام لے

اے قوم کے لوگویہ سارا ملک ہے زیرِ نگیں

ہے بادشاہی تم کو حاصل اور غلبہ بر زمیں

سوچو کیا ہو گا اگر آیا اللّٰہ کا عذاب

کون آئے گا مدد کو جب ہوا ہم پہ عتاب

فرعون بولا جو مناسب ہے وہ سمجھایا تمھیں

سب سے اچھا راستہ میں نے بتلایا تمھیں

صاحبِ ایمان اپنی قوم سے گویا ہوا

ڈر ہے تمہارا حال ہو جو پہلے لوگوں کا ہوا

قومِ نوح عاد و ثمود اور لوگ ان کے بعد کے

اللٰہ کی چاہت نہیں کہ ظلم بندوں پر کرے

ڈر ہے تم بھی ایک دن کرتے پھرو آہ وفغاں

تب تم کو اللہ کے سوا نہ کوئی بھی دے گا اماں

جس کو اللہ چھوڑ دے گمراہیوں میں کھو گیا

چل کے ٹیڑھی راہ پر وہ دور رب سے ہو گیا

اس سے پہلے آئے تھے لے کے یوسف بیّنات

گو مگو میں تم رہے اور ہو گئی ان کی وفات

اور پھر بولے کہ اللہ اب نہ بھیجے گا رسول

حد سے گزرے اور شک میں ہی رہے سب بے اصول

رب کی باتوں میں کریں جھگڑا جو کافر بے دلیل

اللہ اور ایمان والوں کی نظر میں ہیں ذلیل

مغبوض لوگوں کے دلوں پر مہر اللہ کی لگے

متکبّر و جبّارسارے اس ضلالت میں گرے

فرعون یہ ہامان سے بولا محل اونچا بنا

وسعتِ افلاک کا پا سکے جو راستہ

اس پہ چڑھ کر دیکھ لوں موسی کا اللہ ہے کوئی

ہے گماں غالب کہ یہ شخص جھوٹاہے کوئی

رب نے مزیّن کر دئے فرعون کو اعمالِ بد

اس کو روکا راہ سے اسکی تباہی چالِ بد

قوم سے ایمان والے شخص نے یہ بات کی

میری مانو میں دکھاؤں راہِ رشد و بندگی

اے قوم تھوڑی سی متاع، ہے یہ دنیاوی حیات

آخرت دارالقرار اور اس کو ہے ثبات

عملِ بد کا ہو گا بس اس عمل جیسا ہی ثواب

عملِ صالح کی جزا فردوس و رزقِ بے حساب

میں بلاتا ہوں تمہیں نجاتِ دائم کی طرف

تم بلاتے ہو مجھے نارِ جھنم کی طرف

تم یہ چاہو کفر میں اپنے اللہ کا کروں

کچھ نہ جسکا علم ہو شرک میں ایسا کروں

اس کی جانب آؤ جو ہے العزیز اور زبردست

وہ ہی الغفّار ہے کرتا ہے سب کی مغفرت

جن کی جانب تم بلاتے ہو مجھے یوں بے دلیل

دنیا میں نہ آخرت میں بن سکیں میرے وکیل

ہم سب کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے بالیقین

اہلِ دوزخ ہونگے واں کاذبین و مسرفین

جو کہا ہے میں نے تم کو گرچہ لگتا ہے عجیب

تذکروں میں آئیں گی میری باتیں عنقریب

تفویض اللہ کی طرف کرتا ہوں اپنا معاملہ

دیکھتا ہے اپنے بندوں کو وہ ہر دم بے شبہ

مامون اللہ نے کیا مومن کو ہر اک چال سے

فرعون پر ٹوٹا عذاب اور اس کی آل پہ

نارِ دوزخ پر کئے جاتے ہیں صبح و شام پیش

اپنے گناہوں کے سبب انکو ہے یہ انجام پیش

اور قیامت کی گھڑی جب آئے گا یوم حساب

دوزخ میں ہو گا داخلہ اور پھر دگنا عذاب

سلطانِ جابر کے مقابل خطاب مومن کا ضیاؔ

حق پرستوں کے لئیے مشعلِ صدق و وفا

فرعون کے دربار میں تقریر جو مومن نے کی

قرآن ہی کے واسطے سے ہم کو پہنچی مظہریؔ

Saturday, 6 March 2021

Ghazal-karwan chala Gaya-Pak Tea House Jang

غزل ہم کو اکیلا چھوڑ کر کارواں چلا گیا

راوز نامہ جنگ جنگ کے ادبی صفحہ پاک ٹی ہاؤس میں شائع ہونے والی ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی غزل "کارواں چلا گیا" کا تراشہ

روز نامہ جنگ کے ادبی صفحہ پاک ٹی ہاؤس میں شائع ہونے والی ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی غزل "کارواں چلا گیا" پیشِ خدمت ہے۔ یہ غزل ۳ مارچ ۲۰۲۱ کو اس صفحہ کی زینت بنی۔

کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر

راوز نامہ جنگ جنگ کے ادبی صفحہ پاک ٹی ہاؤس میں شائع ہونے والی ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی غزل "کارواں چلا گیا"

ناقہ گئی محمل گیا سارباں چلا گیا

ہم کو اکیلا چھوڑ کر کارواں چلا گیا

پرسشِ احوال کو ایک بول میٹھا سا کہا

کیا بتائیں کتنا آگے تک گماں چلا گیا

مہر و وفا و عشق کی بات ہم نے چھیڑ دی

روٹھ کر ہم سے ہمارا مہرباں چلا گیا

دلبرانِ شہر کی محفل کو سونا کر گیا

اٹھ کے محفل سے شہِ دلبراں چلا گیا

تشنہ لب ہی لوٹ کے مے کدے سے آگئے

اپنی باری آئی تو پیرِ مغاں چلا گیا

عمل تھا تنویم کا یا حسن کی جادوگری

ہم نے روکا دل مگر کشاں کشاں چلا گیا

سامنے محفل میں جب روئے جاناں آ گیا

رخصت خطابت ہو گئی زورِ بیاں چلاگیا

محنت مشقت ابتلائیں اور پھر یومِ حساب

روتا ہوا آیا یہاں گریہ کناں چلا گیا

بندگی میں زندگی جو نہ گذاری مظہریؔ

زندگی کا سفر جیسے رائیگاں چلا گیا

روزنامہ جنگ کے صفحہ کا لنک درج ذیل ہے۔

https://e.jang.com.pk/03-03-2021/lahore/page11.asp#;

Monday, 8 February 2021

Urdu Adab in New Year 2021

نیا سال ادبی دنیا اور توقعات

سال نو پر ملک کے معروف اہل قلم کی آرا

شاعر، ادیب، ماہرِ امراضِ چشم پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والی تحریر

سالِ گذشتہ یعنی بیس سو بیس ( 20 20 )قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سی بے یقینی، اضطراب اور انتشار کی کیفیت میں رخصت ہوا۔ایسی افراتفری اور نظریاتی تضادات گزشتہ کئی دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آئے۔

بقول حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ

؎ اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور

ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور

کرونا کے مرض نے بنی نوعِ انسان کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ بیماری علاج اور اس سے بچاؤ سبھی کچھ کے بارے میں کثیر اختلاف رائے نے بہت سے لوگوں کو ذہنی خلجان میں مبتلا کر دیا ہے۔

؎ بڑھایابہت خوف کو ابلاغی دَجَل نے

بھڑکی ہوئی آتش کو ذرا اور ہوا دی

(ڈاکٹر ضیا ءالمظہری)

ایسے عالم میں اہم سماجی اور ذاتی امور کے بارے میں منظم طور پر غلط تاثرات کی ترویج ہو رہی ہے۔ دنیا ایک عالمی قریہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مادہ پرست اور انسان دشمن قوتیں سماجی رابطوں، انٹرنیٹ اور کثیر الجہتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کے ادراک، شعور اور تخیل کو اپنی گرفت میں لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور یوں معاشروں کی معاشی، معاشرتی اور سماجی روایات کو ایک مخصوص ڈھانچے میں ڈالنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔

؎ اغراض کی دنیا میں محشر سا بپا ہے

کس نے کسے کیسے کہاں یاد کیا ہے۔

(ضیاءالمظہری)

بیس سو اکیس کی آمد ہو چکی ہے۔ ادبی دنیا کا کردار افراد اور معاشرے کے رویوں اور روایات کے حوالے سے ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ میری رائے میں شاعروں اور ادیبوں کے لیے لازم ہے کہ شعوری طور پر صحیح اور غلط کی تمیز کو اجاگر کرنے کی کوششوں کا حصہ بنیں۔

ابلاغی دجل کے لگائے ہوئے ذہنی زخموں کو مندمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دلوں میں امید کے عنصر پیدا کرنے میں ادبیات سے ہمیشہ کی طرح نیا سال بھی تو قع لگائے ہوئے آیا ہے۔ اس دھوکہ دہی اور افراتفری کے عالم میں محسن انسانیت امام الانبیاء محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا نسخہ جدید دور کے مسلمان کے دل کو تقویت عطا کرنے کے ساتھ تمیز خوب و زشت کو بیدار کرنے کا یہ تیر بہدف حل ہے۔ روایات کے مطابق ہر جمعہ کو پوری سورہ کہف یا اس کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت دنیاوی دجل اور فتنہ دجال سے بچنے کے لئے انتہائی مفید ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آنیوالے وقت میں ادبی دنیا اپنی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کرے گی اور اپنے معاشرتی اور سماجی کردار کو بھر پور انداز مین نباہنے میں کامیاب رہے گی۔ تحریر کا اختتام چشمِ بینا سے لئیے گئے ایک شعر پہ کرتا ہوں۔

؎مضطرب سے لوگ مظہرؔ بے سکوں سی زندگی

حق کی دعوت جب چلی تو جائے گا سب کچھ بدل

Tuesday, 15 December 2020

Jasd-e-Do-Lakht-Saqoot-e-Dhaka

The Poem about Saboot-e-Dhaka in Urdu

جسد دو لخت

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہریؔ

پسِ منظر

تم جو بولو تو وہی قصہ سناؤں پھر سے

خود بھی گریہ کروں تم کو بھی رلاؤں پھر سے

انچاس برس پہلے آج ہی کے دن ہمارے قومی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہوا۔ لا الہ الاللہ کے نام پر بننے والی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔جنگ کی وجہ سے ہمارا خاندان پسرور کے نواحی گائوں میں اپنے خالو کے گھر میں پناہ گزیں تھا۔ کمرے کے فرش پر پرالی بچھا کر بستروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پھوپھی کا گیارہ سالہ بیٹا خالد ریڈیو پاکستان پر پنجابی نغمہ "تر رگڑا، اینہاں نون دیو رگڑا" سن کر اپنے جوش وخروش کا اظہار کر رہا تھا والد صاحب جو شعبہ ءِ تعلیم سے وابستہ تھے انتہائی رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئے، " رگڑا تو ہمیں لگ گیا ہے، بی بی سی کے مظابق پاکستان نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں" اُن کے یہ الفاظ، آنسو بھری آنکھیں اور لہجے سے ٹپکتا ہوا دکھ میرے ننھے ذہن پر ہمیشہ کے لئیے ثبت ہو کر رہ گیا۔

معروف ادبی شخصیّت اور نوائے وقت کے ادبی صفحات کی روحِ رواں جناب خالد یزدانی صاحب سے غائبانہ تعارف نوائے وقت کا پرانا قاری ہونے کے ناطے عرصہ ءِ دراز سے حاصل تھا۔ یہ تعارف 2010 میں ایک تعلقِ خاطر میں اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں لکھی ہوئی نطم "دخترِ اُمّت" کو انھوں نے اپنے صفحہ کی زینت بنایا۔ اسی طرح 2016 میں شائع ہونے والی کتاب چشمِ بینا کو بھی اپنے قیمتی تبصرہ سے نوازا اور نوائے وقت کے تبصرہ کتب کے حصہ میں شائع کیا۔

شعبہ امراضِ چشم کے توسط سے براہِ راست ملا قاتوں کا موقع ملا اور یوں محترم یزدانی صاحب گاہے گاہے تشریف لا کر میرے شعرو شاعری کے ادبی ذوق کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ ماہِ نومبر کے آخر میں ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں کچھ لکھیں تا کہ نئی نسل کو تاریخ کے بارے میں آگاہ کیا جاسکے۔

محض پانچ سال کی عمر میں پیش آنے والے اس عظیم قومی سانحہ کے نقوش والدِ مرحوم کی قومی سیاست میں انتہائی دلچسپی کی وجہ سے بچپن ہی سے میرے ذہن پر نقش رہے ہیں۔ اس طرح دسمبر 2020 میں یہ تاثّرات ایک نظم "جسدِ دو لخت" کی صورت میں ۱۳ تاریخ کو نوائے وقت میگزین کی سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں خصوصی اشاعت کا حصہ بنے۔

اس کے اشعار، آج سولہ دسمبر کے دن، غور و فکر کی دعوت کے ساتھ آپ کی بصارتوں اورسماعتوں کی نذر ہیں۔

تاریخ سے جو قومیں سبق لیتی نہیں ہیں

ان کا انجام تباہی ہے بتاؤں پھر سے

جسدِ دو لخت

تم جو بولو تو وہی قصہ سناؤں پھر سے

خود بھی گریہ کروں تم کو بھی رلاؤں پھر سے

پھر سے تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے

اپنے سر کو میں گریباں میں جھکاؤں پھر سے

نازُک سی طبع تیری گراں بار نہ ہو تو

داغ سینے کے ذرا کھل کے دکھاؤں پھر سے

کس کا کیا دوش تھا کیا جرم تھا کیا تھیں اغراض

اتنے پہروں میں زباں کیسے ہلاؤں پھر سے

شیر دل سےجوانوں کو دیا قیدِ عدُو میں

دار پر ایسی قیادت کو چرھاؤں پھر سے

تاریخ سے جو قومیں سبق لیتی نہیں ہیں

ان کا انجام تباہی ہے بتاؤں پھر سے

کیسی تھی ہزیمت جو نہ دیکھی نہ سنی تھی

کیسے اِس سولہ دسمبر کو بھلاؤں پھر سے

پھر سے ملّت میں ہو یکتائی کا جوہرپیدا

دل میں امید کی شمع کو جلاؤں پھر سے

چرخِ ایّام کو ممکن ہو تو الٹا پھیروں

جسدِ دو لخت ضیاءؔ ایک بناؤں پھر سے

اس کے اشعار، غور و فکر کی دعوت کے ساتھ آپ کی بصارتوں اورسماعتوں کی نذر ہیں۔