Showing posts with label Nawaewaqt. Show all posts
Showing posts with label Nawaewaqt. Show all posts

Thursday, 14 October 2021

Mard-e-Nayab-Abou ben Adhem-Urdu Poem

مردِ نایاب

مردِ نایاب

(ابو بن ادھمؒ)

(ماخوذ)

ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی یہ نظم نوائے وقت کے سنڈے میگزین کے ادبی صفحہ (14) پر 11 ستمبر 2021 کو شائع ہوئی۔

نظم کے پس منظر کے بارے ڈاکٹر صاحب یوں رقم طراز ہیں۔

Mard-e-Nayab-Abou ben Adhem-Urdu Poem-مردِ نایاب

زمانہ ءِ طالب علمی میں ایک نظم ابو بن ادھم جو ہماری میٹرک کی انگریزی کی کتاب میں شامل تھی، نے میرے زہن و دل پر ایک گہرا تاثر چھوڑا۔ حضرات ابو بن ادھمؒ کی شہزادگی اور پھر روحانی منازل میں ترقی کے واقعات دینی مجالس میں سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے گوگل پر لی ہنٹ کی نظم کو ڈھونڈا اور یوں ماخوذ نظم "مردِ نایاب" لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر

کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر
مردِ نایاب

اللٰہ راضی ہو اس مردِ نایاب سے

جاگے ایک شب ابو بن ادھم خواب سے

اٹھ کے دیکھا منور شبستان ہے

بقعہ ءِ نور ہے ضوئے مہتاب سے

نرگسِ نو شگفتہ کی مانند لگے

ایک وجودِ منور تب و تاب سے

زر کے اورق پہ وہ فرشتہ حسیں

محوِ تحریر تھا قلمِ نایاب سے

حوصلہ بن ادهم کو سکوں نے دیا

پوچھا لکھتے ہیں کیا قلمِ زر تاب سے

سر اٹھا کر ملک ایسے گویا ہوا

دیکھ کر بولا ایک نطرِ شہداب سے

نام لکھتا ہوں ایسے بندوں کے میں

عشق کرتے ہیں جو ربِّ ارباب سے

بن ادهم نے کہا کہ کہ ذرا ڈھونڈئیے

نام میرا بھی فہرستِ احباب سے

آپ کا نام تو اس میں شامل نہیں

جواباً ملک بولا آداب سے

نہ تو مایوس نہ دل شکستہ ہوئے

بن ادھم بولے فرحاں و شاداب سے

نام لکھیں میرا پیا ر کرتے ہیں جو

بندگانِ خداوندِ وہاب سے

رخصت ہوا نام لکھ کر سروش

اگلی شب کھل گئی آنکھ پھر خواب سے

دیکھتے ہیں وہی ہے فرشتہ کریم

خواب گاہ بھر گئی نورِ سیماب سے

نام ان کے دکھائے که جن کو ملی

الفتِ کاملہ ربِّ ارباب سے

نامِ نامئِ حضرت ابو بن ادهم

عالی رتبہ تھا سارے ہی احباب سے

قربِ خالق جو چاہے کرے پیار وہ

بندگانِ خداوندِ توّاب سے

Abou Ben Adhem Poem by Leigh Hunt

Abou Ben Adhem Poem by Leigh Hunt

Abou Ben Adhem (may his tribe increase!)

Awoke one night from a deep dream of peace,

And saw, within the moonlight in his room,

Making it rich and like a lily in bloom,

An angel writing in a book of gold:—

Exceeding peace had made Ben Adhem bold,

And to the presence in the room, he said,

"What writest thou?"—The vision raised its head,

And with a look made of all sweet accord,

Answered, "The names of those who love the Lord."

"And is mine one?" said Abou. "Nay, not so,"

Replied the angel. Abou spoke more low,

But cheerly still; and said, "I pray thee, then,

Write me as one that loves his fellow men."

The angel wrote and vanished. The next night

It came again with a great wakening light,

And showed the names whom love of God had blest,

And lo! Ben Adhem's name led all the rest.

Monday, 17 May 2021

Deedar-e-Qamar-Eid Greetings-Urdu

عید الفطر ۲۰۲۱ کے پر مسرت موقع پر تمام اہلِ اسلام کو عید مبارک

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ چاند کی رویت پاکستان ہمیشہ سے مختلف پہلوؤں سے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ بحث کا موضوع رہی ہے۔ اسی تناظر میں لکھی ہوئی نظم دیدارِ قمر آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ نظم نوائے وقت میگزین کے سنڈے ایڈیشن میں ۹ مئی ۲۰۲۱ کو شائع ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی اپنی آواز میں ویڈیو بھی آپ کی نذر ہے امید آپ کو پسند آئے گی۔

نظم دیدارِ قمر پیشِ خدمت ہے۔

دیدارِ قمر

بوڑھوں کی نظر سے نہ جوانوں کی نظر سے

آتا ہے نظر چاند پٹھانوں کی نظر سے

مفتیِ رویت کو بھی آئے گا نظر تب

دیکھے وہ اگر چاند پٹھانوں کی نظر سے

کہتے ہو کہ دیکھا ہے قمر، سوچ لو تھوڑا

دھوکا تو نہیں کھایا کہیں عکسِ قمر سے

مفتی ہو یا ہو موسمی احوال کا ماہر

ہوئی مات نظر سب کی پٹھانوں کی نظر سے

رمضان کا ہو چاند یا ہو عیدِ فطر کا

کیا حرج ہے رویت ہو پشاور کے شہر سے

انتیس کا رمضان تو خواہش ہے سبھی کی

ہے خاص لگاؤ ہمیں عیدِ فطر سے

مظہرؔ کی طرف سے ہو دِلی عید مبارک

آنکھوں کو کیا ٹھنڈا دیدارِ قمر سے

Tuesday, 15 December 2020

Jasd-e-Do-Lakht-Saqoot-e-Dhaka

The Poem about Saboot-e-Dhaka in Urdu

جسد دو لخت

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہریؔ

پسِ منظر

تم جو بولو تو وہی قصہ سناؤں پھر سے

خود بھی گریہ کروں تم کو بھی رلاؤں پھر سے

انچاس برس پہلے آج ہی کے دن ہمارے قومی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہوا۔ لا الہ الاللہ کے نام پر بننے والی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔جنگ کی وجہ سے ہمارا خاندان پسرور کے نواحی گائوں میں اپنے خالو کے گھر میں پناہ گزیں تھا۔ کمرے کے فرش پر پرالی بچھا کر بستروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پھوپھی کا گیارہ سالہ بیٹا خالد ریڈیو پاکستان پر پنجابی نغمہ "تر رگڑا، اینہاں نون دیو رگڑا" سن کر اپنے جوش وخروش کا اظہار کر رہا تھا والد صاحب جو شعبہ ءِ تعلیم سے وابستہ تھے انتہائی رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئے، " رگڑا تو ہمیں لگ گیا ہے، بی بی سی کے مظابق پاکستان نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں" اُن کے یہ الفاظ، آنسو بھری آنکھیں اور لہجے سے ٹپکتا ہوا دکھ میرے ننھے ذہن پر ہمیشہ کے لئیے ثبت ہو کر رہ گیا۔

معروف ادبی شخصیّت اور نوائے وقت کے ادبی صفحات کی روحِ رواں جناب خالد یزدانی صاحب سے غائبانہ تعارف نوائے وقت کا پرانا قاری ہونے کے ناطے عرصہ ءِ دراز سے حاصل تھا۔ یہ تعارف 2010 میں ایک تعلقِ خاطر میں اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں لکھی ہوئی نطم "دخترِ اُمّت" کو انھوں نے اپنے صفحہ کی زینت بنایا۔ اسی طرح 2016 میں شائع ہونے والی کتاب چشمِ بینا کو بھی اپنے قیمتی تبصرہ سے نوازا اور نوائے وقت کے تبصرہ کتب کے حصہ میں شائع کیا۔

شعبہ امراضِ چشم کے توسط سے براہِ راست ملا قاتوں کا موقع ملا اور یوں محترم یزدانی صاحب گاہے گاہے تشریف لا کر میرے شعرو شاعری کے ادبی ذوق کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ ماہِ نومبر کے آخر میں ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں کچھ لکھیں تا کہ نئی نسل کو تاریخ کے بارے میں آگاہ کیا جاسکے۔

محض پانچ سال کی عمر میں پیش آنے والے اس عظیم قومی سانحہ کے نقوش والدِ مرحوم کی قومی سیاست میں انتہائی دلچسپی کی وجہ سے بچپن ہی سے میرے ذہن پر نقش رہے ہیں۔ اس طرح دسمبر 2020 میں یہ تاثّرات ایک نظم "جسدِ دو لخت" کی صورت میں ۱۳ تاریخ کو نوائے وقت میگزین کی سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں خصوصی اشاعت کا حصہ بنے۔

اس کے اشعار، آج سولہ دسمبر کے دن، غور و فکر کی دعوت کے ساتھ آپ کی بصارتوں اورسماعتوں کی نذر ہیں۔

تاریخ سے جو قومیں سبق لیتی نہیں ہیں

ان کا انجام تباہی ہے بتاؤں پھر سے

جسدِ دو لخت

تم جو بولو تو وہی قصہ سناؤں پھر سے

خود بھی گریہ کروں تم کو بھی رلاؤں پھر سے

پھر سے تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے

اپنے سر کو میں گریباں میں جھکاؤں پھر سے

نازُک سی طبع تیری گراں بار نہ ہو تو

داغ سینے کے ذرا کھل کے دکھاؤں پھر سے

کس کا کیا دوش تھا کیا جرم تھا کیا تھیں اغراض

اتنے پہروں میں زباں کیسے ہلاؤں پھر سے

شیر دل سےجوانوں کو دیا قیدِ عدُو میں

دار پر ایسی قیادت کو چرھاؤں پھر سے

تاریخ سے جو قومیں سبق لیتی نہیں ہیں

ان کا انجام تباہی ہے بتاؤں پھر سے

کیسی تھی ہزیمت جو نہ دیکھی نہ سنی تھی

کیسے اِس سولہ دسمبر کو بھلاؤں پھر سے

پھر سے ملّت میں ہو یکتائی کا جوہرپیدا

دل میں امید کی شمع کو جلاؤں پھر سے

چرخِ ایّام کو ممکن ہو تو الٹا پھیروں

جسدِ دو لخت ضیاءؔ ایک بناؤں پھر سے

اس کے اشعار، غور و فکر کی دعوت کے ساتھ آپ کی بصارتوں اورسماعتوں کی نذر ہیں۔

Wednesday, 25 November 2020

استحکام ملت

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی کتاب چشمِ بینا سے لی گئی نظم "اِستحکامِ ملت" روزنامہ نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں 22 نومبر 2020 کو شائع ہوئی۔ یہ نظم ولیم رالف ایمرسن کی نظم ( اے نیشن سٹرینتھ ) سے ماخوذ ہے۔ اس مختصر نظم میں شاعر ایک قوم کی کامیابی کا راز افشا کرتا ہے۔ کسی قوم کی کامیابی اس کے افراد سے ہوتی ہے نہ کہ سونے ، زیورات ، تلواروں اور بندوقوں سے۔

This original English poem has been written by “R.W. Emerson.” In this short poem, he reveals the secret of a nation's success. The success of a nation lies with its manpower that is its people and not with gold and jewels.

"A Nation's Strength" by William Ralph Emerson

(ء1833-1917)

What makes a nation's pillars high

And its foundations strong?

What makes it mighty to defy

The foes that round it throng?

ایک ملت کے ستون کیسے ہوتے ہیں بُلند

کیسے ہوتی ہے اساس استوار و ارجُمند

جب ہجوم دُشمناں ہر طرف سے گھیرلے

ناقابل تسخیر ملت، کونسا جوہر کرے

It is not gold. Its kingdoms grand

Go down in battle shock;

Its shafts are laid on sinking sand,

Not on abiding rock.

ذر نہیں ہے قوم کے، باقی رہنے کی دلیل

شان و شوکت جنگ میں، ہوتی آئی ہے ذلیل

پایہ ہائے ذر تو قائم، ہوں پھسلتی ریت پر

پائیدار و مستقل تو، سنگ خارا ہے مگر

Is it the sword? Ask the red dust

Of empires passed away;

The blood has turned their stones to rust,

Their glory to decay.

سُرخ  مٹی  سے  چلو،  آؤ  تو  پوچھیں  ذرا

شہنشاہی کی ضمانت ،تیغ دیتی ہے بھلا

قصہ ماضی ہوئے، عظمتوں کے رنگ سب

خاک و خوں اور زنگ سے، آلودہ خشت و سنگ سب

And is it pride? Ah, that bright crown

Has seemed to nations sweet;

But God has struck its lustre down

In ashes at his feet.

فخر و تکبر کیا ہوا، تابانیِء تاج و کلاہ

دلکش و شیریں بہت، قوم کی اس پہ نگاہ

اک الوہی ضرب نے، بے نور کر پھینکا اِسے

راکھ کر کے اپنے قدموں، کے تلے روندا اسے

Not gold but only men can make

A people great and strong;

Men who for truth and honour's sake

Stand fast and suffer long.

ذر نہیں افراد ہی سے، قوم کی تعمیر ہے

پائیداری، استواری، عظمت و توقیر ہے

صدق و شرف جن کو ضیاءؔ، ہو مقدم دائمی

ثابت و ایستادہ و صابر جو پیہم آدمی

Brave men who work while others sleep,

Who dare while others fly...

They build a nation's pillars deep

And lift them to the sky.

ڈوبے ہوں غافل نیند میں، یہ مرد ہوں محوِ عمل

مفرور ہوں ڈرپوک جب، جراء ت پہ قائم یہ رجل

مضبوط و محکم اور عمیق، رکھیں ملت کے ستوں

اور عروج و ارتفاع میں، آسماں بھی سرنگوں

"A Nation's Strength" first appeared in Our Little Kings and Queens at Home and at School (Louis Benham & Co., 1891). This poem is in the public domain.

کلامِ شاعر بذبانِ شاعر

Monday, 16 March 2020

Urdu Ghazal Ham Nashin-AIMC-Reunion-2020

Reunion AIMC Class 1990

Alhumdulillah 30th Reunion of AIMC Class 1990 successfully with excellent attendance in all collective events, despite all odds and current changing national and international circumstances.

We are truly grateful for the core of my heart to all of the classmates to spare time from their busy schedules to make this event a success.

We are especially thankful to all friends who traveled from abroad in current circumstances, bearing the expenses and taking initiative against all odds due to coronavirus.

A special thanks to Major Sb for managing Food street Dinner and Toni for the managing formal Lunch at the eleventh hour.

We miss all those friends who were unable to make it due to different reasons.

IA will make a new plan soon as per their availability and visit Pakistan.

Stay blessed with health and happiness always

ڈاکٹر ضیاء المظہری کی نوائے وقت کے ادبی صفحہ میں ۱۴ مارچ ۲۰۲۰ کو شائع ہونے والی غزل کا تراشہ

خوب سے ہے خوب تر وہ اور بہتر بہتریں سے

ہم نشینی ہے ہماری ایک پری رخ مہ جبیں سے

مسکرائے برسے خوشبو پھول جھڑتے ہیں جو بولے

غنچہ ھائے نیم وا ہونٹ اس کے احمریں سے

تنگ دامانی میں بھی خوب آسانی میں بھی

زلف سے مہکے شبستاں صبح روشن ہو جبیں سے

خارزارِ زندگی میں جب سے تھاما اس کا ہاتھ

سہل سے لگنے لگے جو راستے تھے آتشیں سے

دل شکستہ سا کبھی جب لوٹ کے آتا ہوں میں

حوصلہ دیتے ہیں اس کے بول میٹھے انگبیں سے

دنیا کا سب سے بہتریں سرمایہ مجھ کو مل گیا

مثلِ جنت ہو حیات ایسے ہمدم ہم نشیں سے

مظہرِ عرفانِ حق ہے عارفہ ءِ مظہریؔ

عشق احمد مجتبٰی سے خوف رب العالمیں سے

سعدومعاذو ھاجرہ عبداللہ ابنِ مظہری

گلستانِ عارفہ و مظہری کے گل حسیں سے

Thursday, 27 February 2020

Spoot e Dudhuchak Shakargarh

روزنامہ نوائے وقت میں۲۴ فروری ۲۰۲۰ کو شائع ہونے والا پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی خدمات اور قابلِ قدر جانی جانے والی شاعری کے بارے میں مضمون

                 پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری ایک نابغۂ روزگار شخصیت

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری

تعارف

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری طبیبِ چشم اور علمی ادبی شخصیت جنہوں نے امراض چشم کا ماہر ہونے میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی ۔ادبی ذوق انکی طبعیت میں ودیعت کیا گیا ہے یہ صاحب کتاب شاعر ہیں اُن کا ایک مجموعہ ءِ کلام ''چشمِ بینا'' کے نام سے شائع ہو چکا ہے کمال تو یہ ہے کہ شعبہ ءِ امراضِ چشم کے ساتھ ان کی وابستگی کی جھلک بہ درجہ ءِ کمال ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے انکا خمیر شکرگڑھ کی سوندھی مٹی سے اٹھتا ہے شکرگڑھ کے سرسید ڈاکٹر حافظ شبیر احمد کے آبائی گاؤں دودھوچک کے ایک تعلیمی خاندان سے ہے۔

خاندانی پس منظر و تعلیم و تربیت

دادا مہر محمد رمضان ایک چھوٹے زمیندار اور اعلی پائے کے باغبان تھے۔ والد اور والدہ دونوں تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔

ڈاکٹر ضیا ء المظہری کے والدِگرامی میاں محمد علی مرحوم

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری زمانہ طالب علمی سے ہی تعلیمی قابلیت پر تعریفی اسناد اور اعزازت و انعامات سے نوازے گئے۔ گورنمنٹ کالج لاہورسے ایف۔ ایس۔سی کے بعد علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیاشعبہ امراض چشم سروسز ہسپتال میں پروفیسر واصف محی الدین قادری مرحوم کی سرپرستی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ استاد طارق سعید کی شاگردی کو فخر سمجھتے ہیں لیٹن رحمت اللہ ہسپتال میں محترم ڈاکٹر طارق سعید صاحب کی معیت میں گزارے ہوئے اڑھائی سال (94-1992ء) کے علاوہ شعبہء چشم کی تمام تر تعلیم وتربیت واصف صاحب مرحوم کی سرپرستی میں تکمیل کو پہنچی 1999ء میں آپؒ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ سرپرستی انہیں حاصل رہی 2014ء میں اُن کی رحلت تک حاصل رہی۔

مرحوم و مغفور پروفیسر واصف محی الدین قادریؒ صاحب

پروفیسر واصف محی الدین قادریؒ نے کمالِ شفقت اور مہربانی سے رضی پولی کلینک شادمان مارکیٹ، لاہور میں واقع اپنا پرائیویٹ کلینک 2003ء میں انکے حوالے کیا۔ یوں معاصر ماہرینِ چشم اور دوستوں نے انہیں خلیفہءِ واصف کے خطاب سے نوازا امراض چشم کے علاج اور جراحی میں مہارت کا یہ سفر1998 میں کراچی (ایف۔سی۔پی۔ایس) اور2002 میں ایڈنبرا اور گلاسگو سے فیلو شپ (ایف۔آر۔سی۔ایس) کے اعزازات کے ساتھ آگے بڑھا جو تا حال جاری ہے پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری امراضِ چشم کے علاج کے ساتھ وابستگی کا آغاز1991 میں ہوا۔

سروسز ہسپتال علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں پروفیسر سیدواصفٍ محیّ ا لدّین قادریؒ اور لیٹن رحمت ا للہ ٹرسٹ آئی ہسپتال (ایل۔آر۔بی۔ٹی) میں ڈاکٹر طارق سعید صاحب اور ڈاکٹر ظہیرا لدّین عاقل قاضی صاحب کی شاگردی میں 1994 میں ایل۔آر۔بی۔ٹی سے اوّلین پرائمری ایف۔سی۔پی۔ایس کرنے کا اعزاز ملا۔ ایک میڈیکل آفیسر کے طور انجمنِ ماہرینِ امراضِ چشم کی بین الاقوامی کانفرنس میں آنکھ کی جرّاحی کے بعد ہونے والی سوزش کے موضوع پر تحقیقی مقالہ پڑھنے کا موقع ملا۔یہ مقالہ کو مزکورہ کانفرنس کا بہترین مقالہ قرار پایا اور پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری صاحب کو سونے کا تمغہ عطا ہوا۔ اِس طرح والدِ ماجد کی رہنمائی میں دوسری جماعت سے شروع ہونے والے سفرِ تقریر کوقومی اور بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہونا شروع ہوئی۔پھرعدساتِ چشم کی ٹانکوں کے ذریعے تنصیب کے موضوع پر 1998 میں پڑھا گیا مقالہ پروفیسر راجہ ممتاز ایوارڈ کا حقدار قرار پایا ۔1998  ہی میں اللہ پاک نے کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی مکمل فیلوشپ سے نوازا اور اِنٹرنیشنل کونسل آف اوفتھلمالوجی کے تین حصوں پر مشتمل امتحان میں بھی اعزاز کے ساتھ پہلی کوشش میں کامیابی مقدر بنی۔ مہارتِ جرّاحی (ہائر سرجیکل ٹریننگ)۔200سے 2002تک سعودی محکمہ صحت میں اخصائے عیون کے عہدے پر کام کرتے ہوئے 2001میں رائل کالج آف سرجنز ایڈنبرا اور گلاسگو سے پہلی کوشش میں ایف۔آر۔سی۔ایس میں کامیابی سے مستند اور ممتاز بین الاقوامی ڈگریاں بھی حاصل ہو گئیں۔ 2003 ءِ سے پانچ تک امریکن آئی سنٹر میں سینئیر کنسلٹنٹ لیزر آئی سرجن کے طور پر کام کرنے کے بعد واپڈا ہسپتال لاہور میں شعبہ امراضِ چشم کے سربراہ کے طور پر انتخاب کے بعد کام کا آغاز کیا جو تا حال جاری ہے اِسی دوران واپڈا ٹیچنگ ہسپتال کے سنٹرل پارک میڈیکل کالج کے ساتھ اِلحاق کے بعد شعبہ ءِ طبِّ عیون کے اُستاد اور سربراہ کے طور پر کام کیا۔

انٹرنیشنل ایوارڈ ز

ءِ2010 میں چین کے شہر بیجنگ میں منعقدہ ایشیا پیسیفک اکیڈمی (اَپاؤ) کی کانفرنس میں 90 منٹ کے لیکچر اورپیچیدگی والی آنکھوں میں عدسات کی تنصیب پر ایک ویڈیو کو پزیرائی حاصل ہوئی۔یہ ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے اور کسی بھی پاکستانی ماہرِ چشم کی طرف سے دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر سب سے سے زیادہ تلاش کی جانیوالی اور دیکھی جانے والی ویڈیوز میں شامل ہے۔ تسلسل کے ساتھ اپاؤ کے منج پر درجنوں تحقیقی مقالوں، لیکچرز اور ویڈیوز پیش کرنے کی بنیاد پر2017 میں سنگا پور میں ہونے والی کانفرنس میں اپاؤ اچیومنٹ ایوارڈ حاصل 2007سے امریکن اکیڈمی آف اوفتھلمالوجی کا باقاعدہ بین الا قوامی ممبر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اکیڈمی انہیں 2015میں اِنٹرنیشنل اوفتھلمالوجی ایجوکیشن ایورڈ اور 2018 میں انٹرنیشنل سکالر ایوارڈ سے نواز چکی ہے اس کے علاوہ آنکھوں کی پیچیدہ جرّاحی کے موضوع پر دو ویڈیو فلمیں امریکن اکیڈمی گلوبل ویڈیو مقابلہ منعقدہ 2014 اور 2018 جیت چکی ہیں جو کسی بھی پاکستانی آئی سپیشلسٹ کا ایک منفرد اعزاز ہے۔

انہیں قومی سطح پر ملنے والے دیگر اعزازات کی تفصیل درجِ زیل ہے۔

1. دی بیسٹ پیپر گولڈ میڈل ۲۰۱۱ او۔ ایس۔ پی (اوفتھلمالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان) حیدر آباد

2. قومی سطح پر طبِّ عیون میں بہترین خدمات پر سونے کا تمغہ ۲۰۱۴ او۔ ایس۔ پی (اوفتھلمالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان) حیدر آباد

3. دی بیسٹ پیپر گولڈ میڈل ۲۰۱۸ او۔ ایس۔ پی (اوفتھلمالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان) کراچی

4. ممتاز قومی خدمات طبّ العیون ایوارڈ ۲۰۱۸ او۔ ایس۔ پی (اوفتھلمالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان) لاہور

5. ممتاز قومی خدمات طبّ العیون ایوارڈ ۲۰۱۹ او۔ ایس۔ پی (اوفتھلمالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان) کراچی

6. ممتاز قومی خدمات  تحقیق طبّ العیون ایوارڈ  پاکستان جورنل آف اوفتھلمالوجی۲۰۱۹ او۔ ایس۔ پی (اوفتھلمالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان) قومی سطح پر دو سو سے زائد تحقیقی مقالے، سرجیکل ویڈیو اور لیکچر لینے کے اعزاز حاصل ہیں۔ اِس کے ساتھ ایشیا پیسیفک میں بیجنگ، گوانگ زو، ٹوکیو، أبو ظہبی، بنکاک، ہانگ کانگ اور سنگاپور  اور یورپ میں ویانا، بارسیلونا، لندن  اور پیرس میں یوروپئین سوسائٹی کی میٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 50 سے زاید مقالہ جات، ویڈیو اور لیکچر دے چکے ہیں شعر و ادب سے  پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری صاحب بچپن سے شغف رکھتے ہیں جس کی آبیاری میں انکے والد ماجد کا علمی تعاون بھی شامل ہے جو انہیں نئی کتابیں منگوا دیتے۔

سکول میں فارسی پڑھی۔ دیوانِ غالب، شرحِ دیوانِ غالب، کلیات اقبال اور انتخاب از کلامِ شعراء جیسی نادر کتب گھر میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ والدہ محترمہ اور سکول میں پروفیسر عطامحمد جیسے اُردو کے محقق اورجیّد عالم کی راہنمائی نے ادبیات کا شوق دو آتشہ کر ڈالا 1992 ایک مقالہ الحمرا آرٹ سنٹر میں ہونے والی اپنی پہلی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیا تو سونے کے تمغے کا حقدار قرار پایا پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری صاحب کی شعری تخلیقات ملک کے متعدد اخبارات و جرائد میں شائع ہو چکی ہیں پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری صاحب صبح کے أوقات میں واپڈا ھسپتال، سہ پہر حمید لطیف ہسپتال میں جرّاحی اور  لیزر سے علاج اور شام کے أوقات میں واپڈا ٹاؤن لاہور میں ایکویٹی آئی سنٹر میں معائنہ اور تشخیصی خدمات روزانہ کا معمول ہیں۔  انہی مصروفیات میں جب بھی کوئی چھوٹا یا بڑا وقفہ ملتا ہیتو بلا تامّل تحقیقی، شاعری، ادبی، قرآن فہمی اور اقبال فہمی کے مشاغل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔