Showing posts with label نوائے وقت. Show all posts
Showing posts with label نوائے وقت. Show all posts

Monday, 8 February 2021

Urdu Adab in New Year 2021

نیا سال ادبی دنیا اور توقعات

سال نو پر ملک کے معروف اہل قلم کی آرا

شاعر، ادیب، ماہرِ امراضِ چشم پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والی تحریر

سالِ گذشتہ یعنی بیس سو بیس ( 20 20 )قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سی بے یقینی، اضطراب اور انتشار کی کیفیت میں رخصت ہوا۔ایسی افراتفری اور نظریاتی تضادات گزشتہ کئی دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آئے۔

بقول حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ

؎ اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور

ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور

کرونا کے مرض نے بنی نوعِ انسان کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ بیماری علاج اور اس سے بچاؤ سبھی کچھ کے بارے میں کثیر اختلاف رائے نے بہت سے لوگوں کو ذہنی خلجان میں مبتلا کر دیا ہے۔

؎ بڑھایابہت خوف کو ابلاغی دَجَل نے

بھڑکی ہوئی آتش کو ذرا اور ہوا دی

(ڈاکٹر ضیا ءالمظہری)

ایسے عالم میں اہم سماجی اور ذاتی امور کے بارے میں منظم طور پر غلط تاثرات کی ترویج ہو رہی ہے۔ دنیا ایک عالمی قریہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مادہ پرست اور انسان دشمن قوتیں سماجی رابطوں، انٹرنیٹ اور کثیر الجہتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کے ادراک، شعور اور تخیل کو اپنی گرفت میں لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور یوں معاشروں کی معاشی، معاشرتی اور سماجی روایات کو ایک مخصوص ڈھانچے میں ڈالنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔

؎ اغراض کی دنیا میں محشر سا بپا ہے

کس نے کسے کیسے کہاں یاد کیا ہے۔

(ضیاءالمظہری)

بیس سو اکیس کی آمد ہو چکی ہے۔ ادبی دنیا کا کردار افراد اور معاشرے کے رویوں اور روایات کے حوالے سے ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ میری رائے میں شاعروں اور ادیبوں کے لیے لازم ہے کہ شعوری طور پر صحیح اور غلط کی تمیز کو اجاگر کرنے کی کوششوں کا حصہ بنیں۔

ابلاغی دجل کے لگائے ہوئے ذہنی زخموں کو مندمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دلوں میں امید کے عنصر پیدا کرنے میں ادبیات سے ہمیشہ کی طرح نیا سال بھی تو قع لگائے ہوئے آیا ہے۔ اس دھوکہ دہی اور افراتفری کے عالم میں محسن انسانیت امام الانبیاء محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا نسخہ جدید دور کے مسلمان کے دل کو تقویت عطا کرنے کے ساتھ تمیز خوب و زشت کو بیدار کرنے کا یہ تیر بہدف حل ہے۔ روایات کے مطابق ہر جمعہ کو پوری سورہ کہف یا اس کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت دنیاوی دجل اور فتنہ دجال سے بچنے کے لئے انتہائی مفید ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آنیوالے وقت میں ادبی دنیا اپنی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کرے گی اور اپنے معاشرتی اور سماجی کردار کو بھر پور انداز مین نباہنے میں کامیاب رہے گی۔ تحریر کا اختتام چشمِ بینا سے لئیے گئے ایک شعر پہ کرتا ہوں۔

؎مضطرب سے لوگ مظہرؔ بے سکوں سی زندگی

حق کی دعوت جب چلی تو جائے گا سب کچھ بدل

Wednesday, 25 November 2020

استحکام ملت

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی کتاب چشمِ بینا سے لی گئی نظم "اِستحکامِ ملت" روزنامہ نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں 22 نومبر 2020 کو شائع ہوئی۔ یہ نظم ولیم رالف ایمرسن کی نظم ( اے نیشن سٹرینتھ ) سے ماخوذ ہے۔ اس مختصر نظم میں شاعر ایک قوم کی کامیابی کا راز افشا کرتا ہے۔ کسی قوم کی کامیابی اس کے افراد سے ہوتی ہے نہ کہ سونے ، زیورات ، تلواروں اور بندوقوں سے۔

This original English poem has been written by “R.W. Emerson.” In this short poem, he reveals the secret of a nation's success. The success of a nation lies with its manpower that is its people and not with gold and jewels.

"A Nation's Strength" by William Ralph Emerson

(ء1833-1917)

What makes a nation's pillars high

And its foundations strong?

What makes it mighty to defy

The foes that round it throng?

ایک ملت کے ستون کیسے ہوتے ہیں بُلند

کیسے ہوتی ہے اساس استوار و ارجُمند

جب ہجوم دُشمناں ہر طرف سے گھیرلے

ناقابل تسخیر ملت، کونسا جوہر کرے

It is not gold. Its kingdoms grand

Go down in battle shock;

Its shafts are laid on sinking sand,

Not on abiding rock.

ذر نہیں ہے قوم کے، باقی رہنے کی دلیل

شان و شوکت جنگ میں، ہوتی آئی ہے ذلیل

پایہ ہائے ذر تو قائم، ہوں پھسلتی ریت پر

پائیدار و مستقل تو، سنگ خارا ہے مگر

Is it the sword? Ask the red dust

Of empires passed away;

The blood has turned their stones to rust,

Their glory to decay.

سُرخ  مٹی  سے  چلو،  آؤ  تو  پوچھیں  ذرا

شہنشاہی کی ضمانت ،تیغ دیتی ہے بھلا

قصہ ماضی ہوئے، عظمتوں کے رنگ سب

خاک و خوں اور زنگ سے، آلودہ خشت و سنگ سب

And is it pride? Ah, that bright crown

Has seemed to nations sweet;

But God has struck its lustre down

In ashes at his feet.

فخر و تکبر کیا ہوا، تابانیِء تاج و کلاہ

دلکش و شیریں بہت، قوم کی اس پہ نگاہ

اک الوہی ضرب نے، بے نور کر پھینکا اِسے

راکھ کر کے اپنے قدموں، کے تلے روندا اسے

Not gold but only men can make

A people great and strong;

Men who for truth and honour's sake

Stand fast and suffer long.

ذر نہیں افراد ہی سے، قوم کی تعمیر ہے

پائیداری، استواری، عظمت و توقیر ہے

صدق و شرف جن کو ضیاءؔ، ہو مقدم دائمی

ثابت و ایستادہ و صابر جو پیہم آدمی

Brave men who work while others sleep,

Who dare while others fly...

They build a nation's pillars deep

And lift them to the sky.

ڈوبے ہوں غافل نیند میں، یہ مرد ہوں محوِ عمل

مفرور ہوں ڈرپوک جب، جراء ت پہ قائم یہ رجل

مضبوط و محکم اور عمیق، رکھیں ملت کے ستوں

اور عروج و ارتفاع میں، آسماں بھی سرنگوں

"A Nation's Strength" first appeared in Our Little Kings and Queens at Home and at School (Louis Benham & Co., 1891). This poem is in the public domain.

کلامِ شاعر بذبانِ شاعر